بچوں کا عالمی دن اور محنت کش بچے / شاہ رخ خان

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کام ہورہا ہے یا یہ سلسلہ صرف نعروں ،دعووں اور تقریروں تک ہی محدود ہے؟ ترقی یافتہ ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا جاتا کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ کیا ہم بچوں کو ان کی صحت اور تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں اوراس وقت تک لیتے رہیں گے جب تک ان کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں۔ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں ، بچے پھول کی مانند ہیں ان سے محبت سے پیش آناچاہئے، لیکن حقیقتاًکیا ہم اس قیمتی سرمائے کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ اور ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے ہیں؟ کیا ہم گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور اور مظلوم بچوں سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرناوالدین کا کام ہے ،جبکہ پڑھائی میں دلچسپی اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے،یہ اسی صورت ممکن ہے جب اساتذہ کرام بچوں پر خاص شفقت فرمائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کی ترقی اوربچوں کے حقوق کاقریبی تعلق ہے ایک تعلیم یافتہ اورمعاشی طور پربااختیار خاتون اپنے گھر، خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشرتی ومعاشی ترقی کے لئے بہتر طور پر کام کر سکتی ہے۔ عقل مند والدین اپنی اولاد کی تربیت پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں حسن خوبی اور سلیقہ سے پیارو محبت سے تربیت کرتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کا مرحلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی ابتدا ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہوجاتی ہے
جبکہ پاکستان میں اس وقت گھروں، چھوٹی فیکٹریوں، ہوٹلوں،کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دوسرے کاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جارہی ہے ،جہاں بچوں سے 10سے12 گھنٹے تک کا م لیا جاتا ہے، انہیں نہ صرف نہایت گندے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ان پر بے پناہ تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف موثر کاروائی عمل میں لانا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے ہم ہرسال 20 نومبر کے دن بچوں کا عالمی دن تو منا لیتے ہیں لیکن عملی سطح پر بچوں کی بہتری کے لئے کوششیں اور کاوشیں نہیں کرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں میں ایسا شعور اجاگر کیاجائے کہ جس سے بچے شوق سے تعلیم حاصل کریں ۔ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں محنت مشقت کرنے والے بچوں کو بھی پیار سے سمجھایاجائے تاکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ اور جو لوگ کسی مجبوری کے باعث بچوں کو تعلیم نہیں دلو اسکتے یا معاشی مسائل کے سبب بچوں سے پر مشقت کام کروانے پر مجبور ہیں ،ان کے بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان بچوں کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مناسب وظیفہ مقرر کیا جائے۔ ہمیں ’’ بچوں کا عالمی دن‘‘ منا کر خاموش نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ عملی سطح پر ان بچوں کے لئے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بلاشبہ بچے ہی ہمارا سرمایہ افتخار اورروشن مستقبل ہیں۔
Comments
Post a Comment