جمہوری نظام حکومت|جمہوریت کی تعریف خوبیاں اور خامیاں | جمہوریت کی اقسام | democracy in urdu

جمہوریت کو انگریزی زبان میں democracy کہا جاتا ہے۔ جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کے معنی عوام اور طاقت کے ہیں۔ اس لحاظ سے جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اور ان کے منشاء کے مطابق حکومت فرائض انجام دیتی ہے۔
ماہرین نے جمہوریت کی مخطلف انداز میں تعریفیں کی ہیں۔ چند مشہور تعریفیں مندرجی زیل ہیں۔
سیلے seeley نے جمہوریت کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
''جمہوریت ایک ایسی طرز حکومت ہے جس میں ہر ایک شریک ہوتا ہے''
لارڈ برائسس کے خیال میں:
''جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں اختیارات ایک فرد واحد یا افراد کے ایک مخصوص طبقہ یا طبقات کی بجائے مواشرے کے تمام افراد کو بحیثیت مجموعی حاصل ہوتا ہے''
ابراہیم لنکن نے جمہوریت کی تعریف یوں کی ہے:
''جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے زریعے اور عوام کی خاطر''

جمہوریت کی اقسام 

جمہوریت کی دو اقسام ہوتی ہیں جو مندرجہ زیل ہیں۔
ا1-بلاواسطہ یا براہ راست جمہوریت
 ا2بلواسطہ یا نمائندہ جمہوریت

Direct democracy بلاواسطہ جمہوریت

بلاساسطہ جمہوریت سے مراد وہ طریقہ کار ہےجس میں عوام براہ راست حکومتی امور میں حصہ لیتے ہیں ۔ عوام خود ہی قانون وضح کرتےے ہیں اور انتظامی امور انجام دیتے ہیں۔ براہ راست جمہوریت کا یہ طریقہ قدیم یونان میں رائج تھا۔ یونان کے شہر بلند و بالا پہاڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ تھلک تھے جن کو شہری ریاست بھی کہا جاتا تھا۔ شہری ریاست رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے بہت مختصر ہوتی تھی۔ تمام افراد ایک جگہ جمع ہو کر اپنی ضروریات کے مطابق قانون وضح کرتے اور انتظامی امور انجام دیتے تھےٓ۔ اس طرح وہ قدیم یونان کی شہری حکومت کے امور میں  براہ راست حصہ لیتے تھے ۔ اس لئے اس طریقہ کار کو براہ راست جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اب قومی ریاستوں پر براہ راست جمہوریت پر عمل کرنا کافی مشکل ہے۔

Indirect democracyبالواسطہ جمہوریت

بالواسطہ جمہوریت سے مراد وہ طریقہ ہے جس میں تمام شہری براہ راست حکومت کے امور انجام نہیں دیتےبلکہ وہ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو عوام کی جانب سے ان کے منشاء کو مطابق نظامِ مملکت چلاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قومی ریاستوں کا رقبہ بہت وسیع اور آبادی بہت زیادہ ہے۔ اور ریاست کے تمام شہری ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتےاور نہ ہی وہ قانون وضح کر سکتے ہیں اور نہ کارو بارِ حکومت میں حصہ لے سکتے ہیں۔اس لئے عوام انتخابات کے زریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو اپنے رائے دہندگان کی جانب سے کاروبارِحکومت چلاتے ہیں۔اسی وجہ سے انہیں نمائندہ جمہوریت بھی کہتے ہیں۔ در اصل دورِ جدید میں فلاحی ریاست کے فرائض میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور انسانی زندگی بے حد مصروف ہو گئی ہے ۔ معاشی جدوجہد کی وجہ سےعام شہریوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ حکومتی فرائض بھی انجام  دے سکیں ۔ اس لئے وہ اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے نظامِ حکومت چلانے کا اختیار  دے دیتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے قوانین اور فیصلوں کا احترام اور پابندی کرتے ہیں۔
ریاست کے وہ افراد جو سیاسی سوج بوجھ رکھتے ہیں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں ۔ عوام کی اکثریت کی تائید سے منتخب ہو کر پارلیمینٹ کے رکن بن جاتے ہیں۔ اگر ریاست میں پارلیمانی نظام ہو تو پارلیمینٹ میں اکثریتی جماعت کا قائد کابینہ بنا تا ہے۔ کابینا اپنی کار گزاریوں کے سلسلے میں پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ پارلیمینٹ کے اراکین عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ صدارتی نظام میں عوام صدر اور پارلیمینٹ کے اراکیں کو منتخب کرتے ہیں جو عوام کے روبرو جوابدہ ہوتے ہیں ۔اس طرح دورِ جدید میں عوام اپنے نمائندوں کے زریعے کاروبارِ حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔

جمہوریت کی خوبیاں 

حکومت میں شرکت کا احساس

جمہوریت کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ  عوام کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کے زریعے سے کاروبار حکومت میں شریک ہیں۔ اس لئے وہ مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین اور حکومت کے فیصلوں کی پابندی کرتے ہیں اور ملک کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

حقوق کا تحفظ

جمہوریت میں عوام کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوتے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندے پارلیمینٹ میں ہو تے ہیں۔ وہ کوئی ایسا قانون نہیں بناتے جو عوام کے حقوق کے منافی ہو۔ اور نہ ہی حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے دیتے ہیں جن سے عوام کے حقوق غصب ہو نے کا خطرہ ہو۔

اختیارات بطور امانت

عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے ان کو نظامِ حکومت چلانے اور عوامی فلاح و بہبودکے فروغ کا اختیار دیتے ہیں۔ اربابِ حکومت کو بھی اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ عوام نے ان کو ایک مخصوص مدت کیلئے حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے ۔ اگر انھوں نے اس اختیارات کا ناجائز استعمال کیا توآئندہ وہ عوام کے اعتماد سے محروم  ہو جائینگے۔اس لئے حکومت ایسے کوئ اقدامات نہیں اٹھاتی جو عوام کی ناراضگی کا باعث ہو۔

عوام کی سیاسی و اخلاقی تربیت

جمہوریت عوام کی سیاسی اور اخلاقی تربیت کا بہترین زریع ہے۔ عوام کو مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک متعدد بار انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہےہر سیاسی جماعت اپنے امیدوار کے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لئے عوام سے رجوع کرتی ہےاور قومی مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ اس سے عوام کو سیاسی جماعتوں کے پروگراموں اور ان کے امیدواروں کے متعلق کوائف سے مکمل آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ بہتر امید وار کا انتخاب کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کو اپنے حقوق اور فرائض سے بھی آگاہی ہوتی ہےان کو اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بار بار انتخابات ہونے سے عوام میں یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان پر کتنی زمہ داری عائد ہوتی ہےاور اگرانہوں نے اپنا ووٹ لالچ میں آکر دیا تو اس سے ناقابلِ تلافی قومی نقصان ہو گا۔اس طرح جمہوریت سے نہ صرف عوام کی سیاسی بلکہ اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے۔

جوابدہی کا تصور

جمہوریت میں ہر سطح پر جوابدہی کا تصور پایا جاتا ہےجس کے باعث حکمرانوں کے اختیارات کے ناجائز ناجائز استعمال کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ پارلیمینٹ کے نمائندےعوام کے رو برواور پارلیمانی حکومت پارلیمینٹ کے رو برو جوابدہ ہوتی ہے۔اگر منتخب نمائندے عوام کی منشاء اور اپنے وعدوں کے مطابق قانون سازی نہیں کرتے تو اگلے انتخابات میں عوام ان کو مسترد کر دینگے۔اسی طرح پارلیمینٹ میں حزب اختلاف  برسراقتدار جماعت کا احتساب کرتی ہےاس سے کابینہ کے ارکان مستعد رہتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو عوام کے مفادات کے خلاف ہو۔ جوابدہی کا یہ تصور جمہوریت میں اپنی مثال آپ ہے۔

جزبہ حب الوطنی کا فروغ

جمہوریت سے عوام میں حب الوطنی کے جزبہ کو فروغ ملتا ہے۔اس نظام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے لئے ہے۔اس سے عوام میں یہ اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے کاروبار میں شریک ہیں۔ اس سے عوام قومی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ان میں اپنے وطن سے محبت کا جزبہ فروغ پاتا ہے۔

انقلابات سے تحفظ

جمہوریت کا نظام لچکدار ہوتا ہے۔ نا پسندیدہ عناصر کو انتخابات کے زریعے مسترد کیا جاسکتا ہے۔ افکار و خیالات کی مکمل آزادی کے باعث عواام اپنے جزبات کااظہارکرسکتے ہیں اورحکومت پر کھل کر تنقید کر سکتے ہیں۔حکومت رائے عامہ کو نظرانداز نہیں کرتی۔اگرحکومت عوام کے مشوروں اور ان کی منشاء کو نظر انداز کردے تو آئندہ انتخاب میں عوام ایسی حکومت کو پر امن طور پر تبدیل کرسکتے ہیں۔اس طرح عوام کو حکومت تبدیل کرنے کیلئے تشدد کا راستہ اختیار نییں کرنا پڑتااور ملک انقلابات سے محفوظ رہتا ہے۔

امن پسند نظام

جمہوری نظام دوسرے نظامون کے مقابلے میں زیادہ امن پسند ہے۔اس میں اقتدار عوام کے نمائندوں کے پاس ہوتا ہے اور جوابدہی کے تصور کی وجہ سے وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے جو عوام کو ناپسند ہو۔ انسانوں کی اکثریت امن پسند ہوتی ہے اس کے برعکس ایک بادشاہ یا آمر اپنے اقتدار کو وسعت دینے کی مرض میں مبتلا ہوتا ہے جس کا نتیجہ دوسروں سے لاظمی تصادم ہوتا ہے۔

خامیاں

دورِ جدید میں جمہوریت ایک مقبول ترین طرزِ حکومت ہے لیکن خوبیوں کے باوجودناقدین نے اس پر کافی تنقید کی ہےاور اس کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جمہوریت کی خامیوں کا جائزہ زیل میں لیا جاتا ہے۔

جاہلوں کی حکومت

جمیہوریت میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے عنان حکومت ان کے سپرد کرتے ہیں ۔ ناقدین کا خیال ہے کہ عوام کی بہت کم تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ یا سیاسی سوجھ بوجھ کی حامل ہوتی ہے۔اکثرجاہل اور کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ایسے افراد سے یہ توقعہ نہیں کی جا سکتی کہ وہ بہترین اور اہل نمائندے منتخب کرلیں گے۔اس لئے عنان حکومت بھی ایسے افراد کو مل جاتی ہے جو جاہل اور کند زہن ہوتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ناقدین اسے جاہلوں کی حکومت قرار دیتے ہیں۔

جوابدہی کا تصور

جمہوریت میں یہ کہا جاتا ہے کہ کابینہ پارلیمینٹ کے روبرو اور پارلیمینٹ عوام کے روبرو جوابدہ ہوتے ہیں، یہ محض ایک فریب ہے۔ عوام کو نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن اگر یہ نمائندے عوام کی منشاء کو نظر انداز کردیں تو عوام پانچ سال سے قبل ان کا احتساب نہیں کر سکتے۔ پھر جب عوام کی اکثریت ہی جاہل ہے تو احتساب کا پورا عمل بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں کابینہ پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے لیکن بیسویں صدی میں یہ محض ایک تصور بن گیا ہے۔ اگر کابینہ کے خلاف کسی وقت تحریک عدم اعتماد پیش ہو تو وزیرِاعظم سربراہِ مملکت کو پارلیمینٹ توڑنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ سرباہِ مملکت اس مشورہ پر عمل کرتا ہے۔ اس طرح پارلیمینٹ کو غیر موئثر کردیا جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جواب دہی کا اصول ناقص ہے۔

سست اور غیر مستحکم طرز حکومت

یہ طرز حکومت نہایت سست اور غیر مستحکم ہے۔ اس میں حکومت کے تمام فیصلے اور قانون سازی بحث و تمحیص اور صلاح مشورے سے ہوتے ہیں۔ خصوصاََ پارلیمانی نظام میں وزیرِاعظم کو اپنے وزراء  اور پارلیمینٹ کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔اس سے وقت کا بہت ضیاع ہوتاہےاس لئے اسے سست حکومت کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس نظام میں حکومتیں جلد تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ خصوصاََ پارلیمانی نظام میں جب کسی سیاسی جماعت کو پارلیمینٹ میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو توڑ جوڑ کے زریعے اسے آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہےاس وجہ سو اسے غیر مستحکم طرزِ حکومت کہا جاتاہے۔

بے جا اخراجات

اس نظام میں بار بار انتخاب ، پروپیگنڈہ، جلسے جلوس اور انتخابی مہم پر بے جا اخراجات آتے ہیں۔سیاسی جماعتیں تو فنڈ حاصل کر کے پورا کر سکتی ہیں لیکن۔ اوسط درجے کا امیدوار ان اخراجات کو پورا نہیں کر سکتا۔اس طرح اوسط درجہ کا شہری اس میں امیدوار بننے کا تصور نہیں کر سکتا جس سے ملک کے ایک طبقہ کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔

سیاسی بد عنوانیاں

جمہوریت میں سیاسی جماعتیں انتخاب جیتنے کیلئے مختلف ہتھکھنڈے استعمال کرتے ہیں۔اور جو افراد منتخب ہو جاتے ہیں وہ مخطلف طریقوں سے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر کسی سیاسی جماعت کو پارلیمینٹ میں اکثریت حاصل نہ ہو تو دوسرے اراکین کا اعتماد حاصل کرنے کیلئےان کو عہدے سیاسی رشوت کے طور پر دئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ چونکہ پارلیمینٹ کے نمائندوں اور وزراء کو عوام سے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں ۔اس لئے اپنے بہی خواہوں کو مخطلف طریقوں سے نوازا جاتا ہے۔

سیاسی گروہ بندی

اس نظام میں قوم کو مخطلف جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو عوام کی نظروں سے
گرانے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بر سرِ اقتدار جماعت قومی مفاد کے بجائے جماعتی مفاد میں فیصلے کرتی ہے اس طرح قوم نہ صرف مخطلف گروہوں میں تبدیل ہوجاتی ہے بلکہ ملک کی بقاء اور سلامتی کو خطرے لاحق ہو جاتے ہیں۔
  

Comments

Post a Comment