برطانیہ میں روایات اور رواجات کی اہمیت | برطانیہ کا آئین غیر تحریری کیوں ہے؟

برطانوی آئین میں روایات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کی وجہ سے برطانوی آئین غیر تحریری کہلاتا ہے۔ برطانوی حکومت انہیں روایات کی وجہ سے چلائی جاتی ہے  یہ روایات برطانوی قوم کے سیکڑوں برسوں کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ انھہیں برطانوی پارلیمینٹ نے نہیں بنایااور ناہی برطانوی انظامیہ نے نافز کیا ہے اور نہ ان کو عدالتوں نے عملی شکل دی ہے۔

یہ وہ سمجھوتے، عادتیں اور رسمیں ہیں کہ جن سے حکومت کا کام چلتا ہے۔ پروفیسر اوگ اور زنگ کے مطابق یہ روایات ان مفاہمتوں، عادتوں یا طریقوں سے مل کر بنتی ہیں جومحض سیاسی اخلاق کے اصول ہوتے ہوئے بھی بڑے سے بڑے عوامی اقدار کے زمرے کے تعلقات اور کارکردگی کو بڑی حد تک متاثر کرتے ہیں۔1910ء میں برطانوی وزیرِاعظم "اسکوتھ" نے دارالعوام میں روایات کے بارے میں کہا تھا "ہماراآئینی نظام روایات اور رسم ورواج پر قائم ہےبادشاہ، پارلیمینٹ اور کابینہ کے تعلقات روایات پر ہی قائم ہیں۔ اگر چہ برطانوی آئین کا تین چوتھائی حصہ شاہی فرامین ہیں پارلیمینٹ کے قوانین اور عدالتی فیصلے تحریر شدہ ہیں لیکن پھر بھی برطانوی آئین غیر تحریری کہلاتا ہےکیونکہ روایات غیر تحریری ہیں جنہوں نے آئین کے طریقہ کار کو بلکل بدل دیا ہے"۔

پروفیسر ڈائیسی نے مخطلف مثالیں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دستوری روایات قانون نہیں ہیں مگر جو کوئی انھیں توڑتا ہے وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہےاور اسے قانون کی خلاف ورزی کی سزا ملتی ہے۔ ڈائیسی کے نزدیک اگر بادشاہ یا ملکہ پارلیمینٹ کا اجلاس سال بھر نہ بلائے توحکومت ایک سال بعد نہ ٹیکس لگا سکتی ہےاور نہ پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر مملکت کا انظام برقرار رکھ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سالانہ فوجی ایکٹ کے بغیر فوجی تنظیم سے حکومت کا کنٹرول ختم ہو جائے گا چنانچہ دستوری روایات کی پابندی کے بغیر نظامِ مملکت چلانا نا ممکن ہے۔ ڈائیسی ایک دوسری مثال یہ دیتا ہے کہ رواج کے مطابق حکومت کو اگر دارالعلوم کا اعتماد حاصل نہ رہےتو یہ مستحفی  ہو جاتی ہےاوراگرحکومت ایسا نہ کرے توپارلیمیمٹ کے ساتھ اس کا تصادم ہو گااور پارلیمینٹ کی اجازت کے بغیر وہ کوئی کام نہ کر سکے گی۔  

لاول کے خیال میں دستوری روایات کی اسلئے پابندی کی جاتی ہے کیوں کہ وہ ضابطہ تعظیم ہے۔ 

 اوگ کے مطابق روایات کی پابندی اس لئے کی جاتی ہے کیوں کہ رائے عام چاہتی ہے کہ ان کی پابندی کی جائےرائے عامہ ان کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی مثال کے طور پر رائے عامہ کا دبائو بھی پارلیمینٹ کا اجلاس ہر سال بلانے پر مجبور کرتا ہے۔تالہ عوامی نمائندے حکومتی معاملات پر بحث کر سکیںاسی طرح رائے عامہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتی کہ ایسی حکومت جسے دارالعوام کا اعتماد حاصل نہ ہواستعفی نہ دے یا نئے انتخابات نہ منعقد کروائے ایسی صورت مں حکومت کے مستعفی نہ ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ بادشاہ کی حمایت سے بر سر اقتدار ہے اور ایسی حکومت کا برسر اقتدار رہنا گویا بادشاہ کی قوت کو بڑہا دیتا ہے۔ان حالات میں کابینا بادشاہ کی خوشنودی کی محتاج رہےگی اور بادشاہ صرف اپنی پسند کے لوگوں کو وزیر بنائے گااس سے پارلیمانی طرز حکومت کااصول اورساتھ ہی جمہوریت کا بنیادی اصول پامال ہو گااور پارلیمینٹ منتخب کرنے کامقصد بھی فوت ہو جائے گا۔

جمہوریت کی بقاء کے لئےضروری ہے کہ روایات پر عمل ہو۔ ورنہ خانہ جنگی اور انقلابی خطرہ پیدا ہو جائے گا ۔ روایات کے مطابق دارلعوام کے پاس کردہ بجٹ دارلعمرا نا منظور نہیں کرتا۔مگر 1909 میں جب دارالعمرا نےبجٹ کو نامنظور کیا تو نتیجتا 1911 میں دارالعمرا نے اختیارات کو ہی کم کردیا گیا اور مالیات سے متعلق تمام امور دارالعلوم کو سونپ دئے گئے۔

غرض یہ کےبرطانوی آئین میں روایات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ روایات ایک قسم کا ضابطہ اخلاق ہے۔جن پر سیاست دانوں کو لازمن عمل کرنا پڑتاہے۔ ان کا کسی مجموعہ قوانین میں کہیں زکر نہیں ملےگا لیکن اس کے باوجود کوئ بھی ان کی خلاف ورزیکا سوچ نہیں سکتا۔  

Comments

Popular posts from this blog

جمہوری نظام حکومت|جمہوریت کی تعریف خوبیاں اور خامیاں | جمہوریت کی اقسام | democracy in urdu

رپورٹنگ اور بیٹ رپورٹنگ /Reporting and Beat reporting

قومی خبر رساں ادارے/ national news agencies